کائناتی شعاعوں سے اہرامِ مصر میں ’پراسرار خالی جگہیں‘ کھوجنے کا منصوبہ https://ift.tt/V7LsyYe
قاہرہ: امریکی، مصری اور برطانوی ماہرین نے مشترکہ طور پر ایک ایسے منصوبے کا اعلان کیا ہے جس میں وہ کائناتی شعاعوں (کوسمک ریز) کی مدد سے اہرامِ مصر میں دریافت ہونے والی پراسرار خالی جگہوں کو زیادہ تفصیل سے دیکھ سکیں گے۔
واضح رہے کہ چند سال قبل مصری اور جاپانی ماہرین نے کائناتی شعاعوں میں پائے جانے والے ’میوآن ذرّات‘ کی مدد سے غزا کے ’عظیم ہرم‘ (گریٹ پیرامڈ) میں دو ایسی خالی جگہیں دریافت کی تھیں جنہیں اس سے پہلے کبھی دیکھا نہیں گیا تھا۔
ان میں سے ایک خالی جگہ (void) کم از کم 30 میٹر لمبی ہے جبکہ اس کی چوڑائی بھی تقریباً ’’گرینڈ گیلری‘‘ جتنی ہے، جو اسی ہرم کے نچلے حصے میں موجود ایک بڑی راہداری ہے۔
مزید تفصیل کےلیے یہ خبر پڑھیے: اہرامِ مصر میں ایک اور خفیہ مقام کی دریافت
اب تک ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ خوفو کے عظیم ہرم میں کم از کم دو ’خفیہ خالی جگہیں‘ موجود ہیں جن تک رسائی کا بظاہر کوئی راستہ نہیں۔
لیکن کیا ان میں سے ہر جگہ کسی ایک بڑے کمرے کی شکل میں ہے یا پھر کئی چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل ہے؟ اس سوال کا جواب فی الحال کسی کے پاس نہیں۔
البتہ، اگر میوآن ذرّات کا سراغ لگانے والے آلات (میوآن ڈٹیکٹرز) زیادہ حساس ہوں تو اس سوال کا بہتر اور قابلِ اعتماد جواب ضرور مل سکتا ہے۔
اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا کی فرمی نیشنل ایکسلریٹر لیبارٹری، ورجینیا یونیورسٹی، ورجینیا ٹیکنالوجی یونیورسٹی، شکاگو یونیورسٹی اور ییل یونیورسٹی کے علاوہ، مصر کی قاہرہ یونیورسٹی اور برطانیہ کی یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے سائنسدانوں نے ایک مشترکہ منصوبہ ترتیب دیا۔
اس منصوبے کے تحت موجودہ کے مقابلے میں 100 گنا طاقتور میوآن ڈٹیکٹر بنایا جائے گا، جس سے ان پراسرار خالی جگہوں کی زیادہ تفصیلات ہمارے سامنے آسکیں گی۔
تاہم یہ ایک مہنگا منصوبہ ہوگا جسے عملی جامہ پہنانے کےلیے یہ ٹیم مناسب فنڈنگ کی تلاش میں ہے۔
ابتدائی طور پر اس منصوبے کی جزئیات ایک تحقیقی مقالے کی شکل میں ’’آرکائیو ڈاٹ آرگ‘‘ پری پرنٹ سرور پر رکھ دی گئی ہیں تاکہ رقم فراہم کرنے والے اداروں کو اس طرف متوجہ کیا جاسکے۔
اس ریسرچ پیپر میں ماہرین نے اپنے مجوزہ میوآن ڈٹیکٹرز کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ جسامت میں اتنے بڑے ہوں گے اہرامِ مصر کے اندر نہیں لے جائے جاسکیں گے۔
لہٰذا انہیں ’عظیم ہرم‘ کے باہر رکھتے ہوئے، مختلف زاویوں سے اس ہرم میں پوشیدہ خالی مقامات کی عکس بندی کی جائے گی؛ اور پہلے سے کئی گنا زیادہ صاف ستھری اور مفصل تصاویر حاصل کی جائیں گی۔
بڑی جسامت کے علاوہ، یہ میوآن ڈٹیکٹرز بہت پیچیدہ اور مہنگے بھی ہوں گے، جو مناسب رقم مل جانے کے بعد بھی دو سے تین سال میں مکمل ہوسکیں گے۔
پھر ان کی آزمائش شروع ہوگی اور اس کے بعد ہی کہیں جاکر وہ فرعون خوفو کے ’عظیم ہرم‘ اور دوسرے اہرامِ مصر میں نامعلوم پوشیدہ مقامات کا سراغ لگانے کا باقاعدہ آغاز کریں گے۔
سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ماہرین کی اس عالمی ٹیم کو صحیح وقت پر مطلوبہ فنڈنگ مل بھی گئی، تب بھی اس منصوبے کے باقاعدہ آغاز میں پانچ سے چھ سال ضرور لگ جائیں گے۔
البتہ، یہ بات بھی اہم ہے کہ خود اہرامِ مصر کی پراسراریت ہزاروں سال سے قائم ہے اور ان کے بارے میں اب تک بہت کچھ جاننے کے باوجود، مزید جاننا ابھی باقی ہے۔
علاوہ ازیں، اگر یہ مجوزہ میوآن ڈٹیکٹرز واقعی میں قابلِ عمل اور کامیاب رہے تو بعد میں ان کا استعمال صرف اہرامِ مصر تک محدود نہیں رہے گا بلکہ وہ زمین کی گہرائی میں موجود نامعلوم مقامات کا سراغ لگانے کے علاوہ کائناتی تحقیق میں بھی استعمال ہوسکیں گے۔
The post کائناتی شعاعوں سے اہرامِ مصر میں ’پراسرار خالی جگہیں‘ کھوجنے کا منصوبہ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » سائنس/ٹیکنالوجی https://ift.tt/7Tv3D9R
via IFTTT
No comments