فرعون کے شاہی خنجر میں شہابِ ثاقب کا ’آسمانی لوہا‘ استعمال ہوا تھا! https://ift.tt/ndjC3Sf
قاہرہ / ٹوکیو: جاپان اور مصر کے ماہرین نے فرعون توتنخ آمون کے مقبرے سے ملنے والے ایک شاہی خنجر کے بارے میں دعویٰ کیا ہے کہ اسے شہابِ ثاقب سے حاصل کردہ لوہے سے تیار کیا گیا تھا۔
اس خنجر کا دستہ سونے سے بنا ہے جس میں موتی جڑے ہیں جبکہ اس کا پھل لوہے کا ہے جس پر سیاہی مائل داغ دھبے پڑ چکے ہیں۔
بتاتے چلیں کہ توتنخ آمون، جسے اکثر ’توتن خامن‘ بھی کہا جاتا ہے، اٹھارواں اور آخری فرعون تھا جو آج سے 3,300 سال پہلے مصر پر حکمران تھا۔
اس کا عظیم الشان مقبرہ 1925 میں دریافت ہوا تھا جس میں سے ہزاروں قدیم اشیاء برآمد ہوئیں، جن پر آج تک تحقیق جاری ہے۔ توتنخ آمون کا شاہی خنجر بھی ان ہی میں سے ایک ہے۔
تاریخی ریکارڈ سے معلوم ہوچکا تھا کہ یہ خنجر اصل میں شادی کا تحفہ تھا جو توتنخ آمون کے دادا ایمن ہوتپ سوم کو سلطنت ’میتانی‘ کے بادشاہ نے دیا تھا جو نسل در نسل ہوتے ہوئے بالآخر توتنخ آمون تک پہنچا تھا۔
فروری 2020 میں قاہرہ عجائب گھر اور جاپان کے ’چیبا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی‘ کے ماہرین نے اس خنجر کے بارے میں مزید باتیں جاننے کےلیے جدید ایکسرے آلات استعمال کیے۔
اس سے پہلے 2016 میں اس خنجر کے پھل پر لگے دھبوں میں نکل اور کوبالٹ دھاتوں کی معمولی مقداریں دریافت ہوچکی تھیں۔
جدید ایکسرے آلات سے 2020 میں نئے مشاہدات سے ان ہی دھبوں میں سلفر، کلورین، کیلشیم اور زِنک بھی معمولی مقدار میں دریافت ہوئے۔
فرعون کا زمانہ وہ تھا کہ جب فولاد سازی کو بہت خاص ہنر سمجھا جاتا تھا جبکہ لوہے/ فولاد سے بنے خنجروں اور تلواروں کو شاہی تحائف کا درجہ حاصل تھا۔
نئی تحقیق سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ اس خنجر کو تقریباً 950 ڈگری سینٹی گریڈ پر کسی بھٹی میں ڈھالا گیا تھا، وہیں یہ انکشاف بھی ہوا کہ اس میں معمولی مقدار والے مادّے (ٹریس مٹیریلز) ٹھیک اسی ترتیب میں ہیں کہ جیسی ’فولادی شہابِ ثاقب‘ میں ہوتی ہے۔
اس قسم کے شہابیوں میں دوسرے مادّوں کی نسبت لوہے کی مقدار خاصی زیادہ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے انہیں لوہے والے یعنی ’فولادی شہابِ ثاقب‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جاپان میں ایسا ہی ایک شہابِ ثاقب کچھ سال پہلے دریافت ہوچکا ہے۔
توتنخ آمون کے شاہی خنجر اور اس شہابیے میں ٹریس مٹیریلز کی ترکیب بالکل یکساں ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس خنجر کی تیاری کےلیے جس جگہ سے بھی کھدائی کرکے کچدھات نکالی گئی تھی، وہاں شاید لاکھوں کروڑوں سال پہلے کوئی فولادی شہابِ ثاقب ٹکرا چکا تھا۔
عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ لوہے کا زمانہ تقریباً 1200 قبلِ مسیح میں شروع ہوا تھا۔
لیکن اس خنجر میں لوہے کے استعمال کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ شاید لوہے کے زمانے کا آغاز 1400 قبلِ مسیح کے آس پاس ہوچکا تھا۔
نوٹ: یہ تحقیق ’میٹیورائٹس اینڈ پلینٹری سائنس‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔
The post فرعون کے شاہی خنجر میں شہابِ ثاقب کا ’آسمانی لوہا‘ استعمال ہوا تھا! appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » سائنس/ٹیکنالوجی https://ift.tt/TkZXx5u
via IFTTT
No comments