بینتھم پریس: تحقیقی فراڈ سے بھرپور چشم کشا کہانی https://ift.tt/oCGRaqt
کراچی: بینتھم پریس ایک ایسا اشاعتی ادارہ ہے جو سائنسی تحقیق کے موضوع پر بنیادی جرائد شائع کرتا ہے۔ یہ ادارہ تیزی سے پھلتا پھولتا رہا ہے۔ لیکن اس سے وابستہ فراڈ اور دھوکے کی داستان بھی بہت طویل ہے۔
چند روز قبل 15 اپریل کو بینتھم پریس کی جانب ادارے کے تمام افراد ’تاحکمِ ثانی‘ اپنا کام روک دیں۔ ادارے کے کئی عہدیداروں نے یہ بتایا کہ کہ یہ زبانی حکم انہیں پاکستان کے ممتاز کیمیاداں اور ایچ ای سی کے سابق سربراہ ڈاکٹر عطاالرحمان کی جانب سےموصول ہوا تھا۔
اس حکم سے چند روز قبل ہی ڈاکٹر عطا الرحمان بینتھم پریس میں اپنے کسی بھی انتظامی، مالیاتی اور علمی کردار سے انکار کرچکے تھے۔ انہوں نے مجھے ایک ٹیکسٹ پیغام میں کہا تھا کہ وہ اس ادارے سے شائع ہونے والے کئی تحقیقی جرائد میں سے صرف ایک کے ایڈیٹر ہیں اور انہوں نے کہا تھا کہ اس جرنل سے ان کی وابستگی ’خالصتاً تعلیمی و تحقیقی نوعیت‘ کی ہے۔ ڈاکٹرعطاالرحمان نے یہ بھی بتایا کہ وہ کسی مالی اور انتظامی عہدے پر فائز نہیں ہیں۔
لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان کا نام بینتھم سائنس کے ایگزیکٹو ایڈیٹر میں شامل ہے جو پریس کے ادارتی بورڈ میں چیف ایڈیٹر کے بعد دوسرا اہم اور بڑا عہدہ ہے۔ یہ عہدہ بینتھم ویب سائٹ پر اپریل 2022 کےاوئل میں لکھا نظر آیا۔ یہاں تک کہ گوگل کیشے اور وے بیک مشین جیسے دو اہم ڈجیٹیل ٹول بھی اس کی تصدیق کرتےہیں۔ یہ ویب سائٹ کی ٹیکسٹ کو کسی فائل کی طرح دکھاتے ہیں اور ہم ماضی میں بھی جاکر ان کے ویب پیج چیک کرسکتے ہیں خواہ انہیں بعد میں وہاں سے ڈیلیٹ ہی کیوں نہ کردیا گیا ہو۔
ڈاکٹر عطا الرحمان نے 1994 میں اپنے امریکی دوست میتھیو ہونان کے ساتھ مل کر بینتھم سائنس کی بنیاد رکھی تھی۔ اسے شارجہ ایئرپورٹ انٹرنیشل فری (ایس اے آئی ایف) زون میں بطور نجی کاروبار ٹیکس فری ایریا میں رجسٹر کرایا تھا تھا۔ بینتھم پریس کی ٹیم میں متحدہ عرب امارات، یونان، جرمنی ، بھارت، چین، بیلاروس، چیک ریپبلک، پولینڈ، میکسکو، ترکی، اسرائیل، پرتگال، کوریا، اریان، فرانس، اسپین، امریکا اور برطانیہ سمیت کئی ممالک کے ماہرین کے نام بھی شامل ہیں۔ لنکڈ ان پروفائل کے مطابق اس ادارے سے 169 افراد وابستہ ہیں جن میں 63 پاکستانی ہیں۔
ان میں سے 22 افراد کا تعلق جامعہ کراچی سے ہے جہاں سے خود ڈاکٹر عطالرحمان نے بھی تعلیم حاصل کی ہے اور اسی جامعہ کے شعبہ کیمیا سے تدریس کا آغاز بھی کای تھا۔ اس کے بعد وہ 2002 میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ منتخب ہوئے اور عمران خان حکومت میں سائنس و ٹیکنالوجی ٹاسک فورس کے سربراہ بھی تھے۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر عطالرحمان بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی تحقیق کے سربراہ بھی رہے جو جامعہ کراچی میں واقع ہے۔ اس ادارے کے تحت ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری اور ڈاکٹر پنجوانی مرکز برائے سالماتی ادویہ اور ادویاتی تحقیق کے ادارے بھی شامل ہیں جو ایچ ای سی کی گرانٹ کے تحت چلتے ہیں۔
بینتھم سے وابستہ کئی افراد نے بتایا کہ انہوں نے ایچ اے جی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے اندر ایک چھوٹے سے کمرے سے اپنے کام کا آغاز کیا تھا۔ کارکنوں نے بتایا کہ ان میں سے ایک محمود عالم بھی شامل ہیں جو اس وقت ایچ ای جے کے سربراہ ڈاکٹر عطا الرحمان کے پرسنل اسسٹنٹ تھے جنہوں نے ڈاکٹر عطا کے جونیئر ٹیکنکل آفیسر احمداللہ کے ساتھ مل کر ایک سے زائد تحقیقی جرنل کی اشاعت کا آغاز کیا۔ تاہم اس کی مالی اور دیگرتفصیلات سامنے نہیں آسکییں۔
2000 میں بینتھم سائنس گلستانِ جوہر میں ایک کرائے کے مکان میں شفٹ ہوگیا۔ پھر 2002 میں وہ گلزارِ ہجری کی زوارمن ریزیڈنسی میں منتقل ہوا جو یونیورسٹی روڈ پر واقع ہے۔ وہاں کام کرنے والے لوگوں نے بتایا کہ اس کے باہر کوئی علامتی بورڈ نہیں تھا کہ یہ کس شے کا دفتر ہے اور اس کے اندر کیا کام ہوتا ہے۔
حقیقت میں یہ ساری عمارتیں اور فلیٹ بینتھم سائنس کے لیے مختص نہ تھیں کیونکہ خود اشاعتی ادارہ بھی اس وقت رجسٹر نہیں کیا تھا تھا۔ درحقیقت انہیں’انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز‘ کے نام سے آئی ٹی سہولیات کی ایک کمپنی کے لیے کرائے پر لیا گیا تھا۔ اس کمپنی کے مالک ڈاکٹر عطاالرحمان کے چار بیٹے یعنی جلیل الرحمان، سہیل الرحمان، شکیل الرحمان اور عبید الرحمان تھے۔
یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی سروس اس وقت بنائی گئی جب ڈاکٹرعطاالرحمان جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں وزیرِ سانس و ٹیکنالوجی تھے۔ پھر مارچ 2000 سے ستمبر 2003 تک حکومت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز کو کئی مراعات اور ٹیکس میں چھوٹ بھی دی تھی۔ یہ دور آئی ٹی کے تیزرفتار رحجان کا تھا اور اس میں کمپنی نے درست مواقع پر درست فوائد حاصل کئے۔
پھر یکم جولائی 2003 کو بینتھم سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز نے مشترکہ طور پر ایک معاہدہ کیا ۔ اس کا باقاعدہ پتہ بھی وہیں گزارِ ہجری اسکیم 33 تھا جہاں بینتھم کی سرگرمیاں جاری تھی۔
اس معاہدے کے تحت ایفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز کی ذمے داریوں میں بینتھم کو کئی سہولیات دینا تھیں جن میں ویب ڈویلپمنٹ، سافٹ ویئر کی تیاری، ای میل سروس، سائنسدانوں، ایڈیٹروں اور قارئین کے لیے نیوزلیٹر اور ای میل وغیرہ کی سہولیات شامل تھیں۔
یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر عطاالرحمان نے مجھے گزشتہ ہفتے ایک ٹیکسٹ میسج میں کہا کہ بینتھم پبلشنگ ہاؤس پاکستان میں موجود نہیں اور نہ ہی کوئی پاکستانی اس سے وابستہ ہے۔
لیکن حسین ابراہیم جمال انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری سے وابستہ احمد اللہ سے انکشاف ہوتا ہے کہ یہ محض اس تاثر کی پردہ پوشی تھی کہ بینتھم پاکستان سے کام نہیں کررہا ہے۔ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز سے بھی وابستہ رہے تھے۔ پہلے انہوں نے 2005 سے 2011 تک بطور کمپوزر کام کیا اور اس کے بعد کمپوزنگ شعبے کے سربراہ ہوگئے۔
احمد اللہ کہتے ہیں کہ 2012 کے اوائل میں انہیں ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز کی اندرونی ای میل بتاتا ہے کہ اس ضمن میں ڈاکٹر عطاالرحمان نے سب سے پہلے یہ پیغام محمود عالم کو بھیجا جو اس وقت کاغذات کی حد تک انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز کے سربراہ تھے۔ یہ ای میل 27 مارچ 2009 کو بھیجی گئی تھی جس کی کاپی، میتھیو ہونان، جیل الرحمان اور عبیدالرحمان کو بھی دیکھی گئی تھی۔ اس کا عنوان تھا: خفیہ: احمد اللہ ، کیا اسے بینتھم میں ہونا چاہیے؟
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ محمود عالم اور ڈاکٹرعطا الرحمان کے بیٹے جلیل الرحمان دونوں ہی بینتھم سائنس کے ای میل ایڈریس استعمال کررہے تھے۔ حالانکہ وہ ادارے کے اسٹاف میں شامل نہ تھے۔ پھر یہ بھی طاہر ہوتا ہے کہ احمدللہ انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز کے ساتھ ساتھ بینتھم کے ملازم بھی تھے۔
اس ای میل کا خلاصہ یہ ہے کہ احمد اللہ نے ایچ ای جے ادارے کے ایک طالبعلم سے بینتھم سائنس کے لیے تھیسس ٹائپ کرنے اور فارمیٹنگ کے پییسے لیے تھے حالانکہ اسے اس کی تنخواہ ملتی ہے۔ احمد اللہ نے کئی بار ایسا کیا ہے۔ اس ضمن میں تمام ضروری رپورٹ سے آگاہ کیا جائے کہ آخر یہ کیا ہورہا ہے۔
اب حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خود ڈاکٹرعطاالرحمان اس معاملے میں مداخلت کا کوئی قانونی جواز نہیں رکھتے۔ اول ڈاکٹر رحمان نہ توانفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز سے کوئی تعلق رکھتے تھے اور بینتھم پبلشنگ ہاؤس سے وابستگی کا وہ بار بار انکار کرچکے ہیں۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں اداروں کو ڈاکٹر عطاالرحمان سے تعلق تھا جو کئی مقامات پر سامنے آیا ہے۔ اسی طرح فروری 2007 کی ایک ای میل میں محمود عالم کسی معاملے پر عطاالرحمان اور میتھیو سے اجازت طلب کررہے ہیں۔ اسی طرح عطالرحمان کے ایک اور ذاتی ای میل ایڈریس ibne_sina@hotmail.com اور اس وقت ایچ ای سی چیئرمین کی ای میل attast@comsats.net.pk پر محمود عالم نے ای میل کرکے ادارے کے افراد کے لیے کسی مالی مدد کی درخواست کرتے نظر آتے ہیں۔ پھر عطاالرحمان اس ای میل کا جواب بھی دیتے نظر آتے ہیں۔
اس سے ظاہر ہوتا کہ کس طرح اعلیٰ تعلیمی کمیشن جیسا بڑا ادارہ ساتھ ساتھ ایک چھوٹے ذاتی ادارے کے معاملات بھی دیکھ رہا ہے۔ کیا یہ اخلاقی ، قانونی اور ضابطہ جاتی سطح پر درست عمل ہے۔
ایک کھلا اسکینڈل
2008 سے 2009 میں کورنیل یونیورسٹی کے ایک طالب علم فلپ ڈیوس کو بینتھم سائنس کی جانب سے بغیر کسی انکوائری کے کئی ای میل موصول ہوئیں جن میں اسے بینتھم سائنس میں شائع مقالاجات چھپوانے کی پیشکش کی گئی تھی۔ یہ دھندہ تب سے اب تک بڑھتا ہی جارہا ہے جس میں پوری دنیا میں اوپن ایکسس کے تحت جرنل شائع ہوئے ہیں۔ ان میں سے کئی پریڈیٹری یا غیرمعیاری تحقیقی جرنلز بھی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ جرنل کسی ان کا مقالہ دنیا بھر کے قارئین کو مفت میں بیان کرے گا۔ اور محقق یا پڑھنے والوں کو بھاری رقم دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
فلپ سے کہا گیا تھا کہ اس کے تحقیقی مقالے کو ہم منصب تجزیاتی عمل (پیر ریو عمل) سے گزارا جائے گا اور تمام معیارات پر پرکھا جائے گا۔ بس اسے 800 ڈالر کی رقم دینا ہوگی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے بینتھم سائنس کی ادارتی ٹیم میں ایک جگہ کی پیشکش بھی کی گئی تھی۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس عہدے کے بعد وہ اپنا تحقیقی کام مفت میں شائع کراسکے گا۔
فلپ نے اس کا دلچسپ جواب دیا۔ انہوں نے ایک ادارے کی اہمیت چانچنے کے لیے سافٹ ویئر کی مدد سے ایک بے تکا، جھوٹا اور غیرمنطقی تحقیقی مقالہ لکھ مارا جو کمپیوٹر سائنس سے متعلق تھا۔ اس کام میں نیوانگلینڈ جرنل آف میڈیسنس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینٹ اینڈرسن نے بھی اس کی مدد کی تھی۔ تحقیق مقالے میں ایک بے تکا جملہ یہ بھی تھا:
“In this section, we discuss existing research into red-black trees, vacuum tubes, and courseware. On a similar note, recent work by Takahashi suggests a methodology for providing robust modalities, but does not offer an implementation.”
مقالے کا عنوان بھی مضحکہ خیز تھا جس کا نہ کوئی سر تھا اور نہ ہی پیر، خیر یہ مقالہ بینتھم کی چھتری تلے شائع ہونے والے ایک تحقیقی جرنل اوپن انفارمیشن سائنس کو 29 جنوری 2009 کو بھیجا گیا۔ فلپ ڈیوس کو چار ماہ بعد بینتھم کی اسسٹنٹ مینیجر ثنا مکرم کی ای میل موصول ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ آپ کا تحقیقی مقالہ پیئر ریویو عمل کے بعد اشاعت کے قابل قرار دیا گیا ہے۔
اس کے بعد فارم بھرنے اور فیس ادا کرنے کے احکامات دیئے گئے تھے۔ اس کے بعد جامعہ کیلیفورنیا ڈیوس کے پروفیسر جوناتھن اے آئیسن نے بھی بینتھم کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اس پر ایک بلاگ بھی لکھا۔ 30 جنوری 2009 کو انہوں نے کہا کہ یہ صرف رقم بنانے کا ایک طریقہ ہے۔
اس کے بعد برطانوی ماہر رچرڈ پوئنڈر نے بھی 23 اپریل 2008 کو ایک جگہ نہ صرف بینتھم پبلشنگ ادارے بلکہ اوپن ایکسیس جرنلز پر بھی تنقید کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بینتھم پبلشنگ، سائنسدانوں، طالبعلموں اور عام قارئین کو ای میل کی بھرمار سے مقالہ شائع کرنے کی ترغیب دے رہا اور اس کا مقصد صرف اور صرف رقم بنانا ہے۔
بینتھم سائنس پبلشنگ ہاؤس نہ صرف تحقیقی جرنل شائع کرنے والا ایک جعلی ادارہ ثابت ہوا بلکہ اس نے پاکستان کی عملی اور تحقیقی فضا کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔
یہ تحقیق فریال احمد ندیم کی ہے جو لوک سجاگ کی ویب سائٹ پر شائع ہوئی ہے۔
The post بینتھم پریس: تحقیقی فراڈ سے بھرپور چشم کشا کہانی appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » سائنس/ٹیکنالوجی https://ift.tt/5XFmQSk
via IFTTT
No comments