کیا یہ ڈائنوسار کے زمانے کا ’’مور‘‘ تھا؟ https://ift.tt/34oEvRD
لندن: سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ آج سے 11 کروڑ سال پہلے ایک ایسا ’’پرندہ ڈائنوسار‘‘ بھی پایا جاتا تھا جو شاید اپنی زندگی میں کسی مور کی طرح دکھائی دیتا ہوگا۔ البتہ اس کی چونچ اور دانتوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ گوشت خور تھا۔
خبروں کے مطابق ’’اوبیراجارا جوباتُس‘‘ (Ubirajara jubatus) کے سائنسی نام والے اس قدیم و معدوم پرندے کے رکازات کچھ سال پہلے شمال مشرقی برازیل کے ایک علاقے ’’کراٹو فارمیشن‘‘ سے دریافت ہوئے تھے مگر وہ اسمگلروں کے ہتھے چڑھ گئے جو اسے ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے ملک میں پہنچاتے رہے۔
یہ تو معلوم نہیں کہ سائنسدانوں تک یہ رکازات کیسے پہنچے اور انہیں یہ سب باتیں کیسے پتا چلیں، لیکن اتنا ضرور طے ہے کہ ’’اوبیراجارا‘‘ پر تحقیق کا بڑا حصہ برطانیہ کی پورٹسمتھ (پورٹس ماؤتھ) میں انجام دیا گیا ہے جبکہ جرمنی اور میکسیکو کے ماہرین نے بھی اس تحقیق میں معاونت کی ہے۔
اوبیراجارا جوباتُس کے رکازات خاصی مکمل حالت میں ہیں جنہیں دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اس پرندے کی مکمل لمبائی صرف ڈیڑھ فٹ کے لگ بھگ، یعنی موجودہ زمانے کی مرغی جتنی رہی ہوگی۔
علاوہ ازیں، اس کی پوری کمر پر گھوڑے کی ایال جیسے لمبے لمبے اور نرم بال تھے، گردن کے ارد گرد سخت اور قدرے موٹی سلاخوں جیسی نوکیلی ساختیں نکلی ہوئی تھیں جبکہ گھنے اور موٹے بالوں کی یہی دبیز تہہ اس کے بازوؤں (arms) پر بھی تھی۔ اس کے دانت بہت چھوٹے لیکن نوک دار تھے۔
ویسے تو اپنے خد و خال کی مناسبت سے یہ فلم ’’جیوراسک پارک‘‘ میں دکھائے گئے ’’ویلوسی ریپٹر‘‘ نامی شکاری ڈائنوسار سے مشابہت رکھتا ہے لیکن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اسے ڈائنوسار سے زیادہ ایک ایسا پرندہ قرار دینا زیادہ مناسب رہے گا جس کا پورا جسم لمبے لمبے بالوں سے ڈھکا ہوا تھا۔
اس کی گردن کے قریب نکلی ہوئی، لمبی لمبی نوکیلی ساختوں کے بارے میں بھی سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ان کا مقصد کسی لڑائی میں حصہ لینا نہیں تھا بلکہ ’اوبیراجارا‘ کی خوبصورتی کو بڑھاوا دینا تھا؛ یعنی ان کی نوعیت صرف ’’آرائشی‘‘ تھی، اور کچھ نہیں۔
پہلے یہ خیال عام تھا کہ موجودہ زمانے کے پرندوں کا ارتقاء ڈائنوساروں سے ہوا تھا لیکن ’اوبیراجارا‘ اور اس جیسی دوسری دریافتیں یہی اشارہ کررہی ہیں کہ پرندے نہ صرف ڈائنوسار کے زمانے میں موجود تھے بلکہ شاید ان کا ارتقاء بھی ڈائنوسار سے جداگانہ طور پر ہوا تھا۔
شک کا جواز
اگرچہ اس دریافت کی تفصیلات آن لائن ریسرچ جرنل ’’کریٹے شیئس ریسرچ‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں جو ایک معتبر تحقیقی جریدہ ہے، تاہم کچھ باتیں ایسی ہیں جو اس دریافت کو مشکوک بنا رہی ہیں۔
توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ مذکورہ دریافت کا مکمل دار و مدار ’اوبیراجارا‘ کے صرف ایک رکاز (فوسل) پر ہے کیونکہ اب تک اس معدوم و ناپید ’پرندے‘ کا صرف ایک ہی نمونہ دریافت ہوسکا ہے جو، حیرت انگیز طور پر، خاصی مکمل حالت میں ہے۔ اگر اس دریافت میں واقعتاً کوئی سچائی ہے تو برازیل کی ’’کراٹو فارمیشن‘‘ سے اس پرندے کے یا اس جیسے دوسرے پرندوں کے رکازات لازماً ملنے چاہئیں۔
یہ نکتہ اس وجہ سے بھی اہم ہے کیونکہ ماضی ’’جعلی رکازات‘‘ (fake fossils) کی دریافت کے درجنوں واقعات ہوچکے ہیں جنہیں برسوں تک درست سمجھا جاتا رہا؛ لیکن بعد میں کی گئی محتاط تحقیقات سے ’’رکازی جعلسازی‘‘ کا پول کھل گیا۔
1912 میں پلٹ ڈاؤن مین (Piltdown man)، بارہ سال بعد 1924 میں نبراسکا مین (Nebraska man) اور 1999 میں ’’آرکیوریپٹر‘‘ ایسی ہی مشہور ترین لیکن جعلی ’’ارتقائی دریافتوں‘‘ کی تین مثالیں ہیں۔
The post کیا یہ ڈائنوسار کے زمانے کا ’’مور‘‘ تھا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » سائنس/ٹیکنالوجی https://ift.tt/3r8LHuC
via IFTTT
No comments