یہ ’نابینا چھچھوندر‘ اپنی آنکھوں سے مقناطیسی میدان کو ’دیکھ‘ سکتی ہے https://ift.tt/eA8V8J
برلن: جرمن سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ زیمبیا کے جنگلات میں زیرِ زمین رہنے والی ایک قسم کی چھچھوندر اگرچہ تقریباً اندھی ہوتی ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی اِن ہی آنکھوں سے مقناطیسی میدان کو ’’دیکھ‘‘ سکتی ہے۔
تحقیقی مجلے ’’جرنل آف دی رائل سوسائٹی انٹرفیس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی یہ تحقیق جرمنی کی یونیورسٹی آف ڈوئسبرگ ایسن کے ڈاکٹر کائی آر کاسپر اور ان کے ساتھیوں نے کی ہے۔
اب تک ہم کئی پرندوں کے بارے میں جان چکے ہیں کہ ان میں زمین کا مقناطیسی میدان محسوس کرنے کی زبردست صلاحیت ہوتی ہے، جسے وہ ہزاروں میل دور تک نقل مکانی کے دوران استعمال کرتے ہیں اور اپنی منزل تک بہ آسانی پہنچ جاتے ہیں۔
حالیہ تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کتے بھی مقناطیسی میدان کو محسوس کرتے ہوئے اس سے رہنمائی لیتے ہیں۔ ’’اینسلز مول ریٹ‘‘ (Ansell’s mole-rat) کہلانے والی ان چھچھوندروں کے بارے میں بھی ماہرین کو یہی گمان تھا لیکن اب تک اس کی تصدیق نہیں ہوئی تھی۔
چھوٹے چھوٹے بٹنوں جیسی آنکھوں والی یہ چھچھوندریں زمین کے اندر لمبی لمبی سرنگیں بنا کر کالونیوں کی شکل میں رہتی ہیں۔
ایک کالونی میں تقریباً دس چھچھوندریں رہتی ہیں جبکہ ایسی کئی کالونیاں آپس میں ’’رابطہ سرنگوں‘‘ کے ذریعے منسلک ہوتی ہیں جن کے راستے ایک کالونی کی چھچھوندریں، دوسری کالونیوں میں آنا جانا کرتی ہیں۔
لیکن خاص بات یہ ہے کہ ہر کالونی میں چھچھوندریں اپنے رہنے کی جگہ ہمیشہ سرنگوں کے جنوب مشرقی سمت ہی میں بناتی ہیں۔
ماہرین حیران تھے کہ ایک ایسی چھچھوندر جو اپنی آنکھوں سے صرف روشنی اور تاریکی میں فرق کرسکتی ہے، یعنی تقریباً نابینا ہوتی ہے، وہ زیرِ زمین گھپ اندھیرے میں کس طرح بالکل درست سمت کا تعین کرتے ہوئے ہمیشہ صرف جنوب مشرقی سمت ہی کا انتخاب کرتی ہے۔
اسی بناء پر سائنسدانوں کا خیال تھا کہ ان چھچھوندروں میں بھی، پرندوں کی طرح، زمینی مقناطیسی میدان سے رہنمائی لینے کی قدرتی صلاحیت ہوتی ہے۔ مگر یہ صلاحیت ان کے جسم میں کہاں ہوتی ہے؟ اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ البتہ بعض ماہرین کا شبہ ان چھچھوندروں کی آنکھوں پر تھا، لیکن اس کےلیے بھی ان کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں تھا۔
جرمن سائنسدانوں نے یہ معما حل کرنے کےلیے ایک ’’بے رحمانہ‘‘ انداز اختیار کیا: انہوں نے محتاط سرجری سے تجربہ گاہ میں رکھی گئی چھچھوندروں کی آنکھیں نکال دیں۔ آنکھوں سے محروم ہوجانے کے بعد بھی ان چھچھوندروں کے معمولات میں کوئی فرق نہیں پڑا اور وہ پہلے کی طرح سرنگیں کھودنے، ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے اور بچے پیدا کرنے میں مصروف رہیں۔
جب ماہرین کو یقین ہوگیا کہ آنکھوں سے محروم ہونے کے بعد بھی یہ چھچھوندریں اپنی معمول کی زندگی گزار رہی ہیں، تو انہوں نے تجربہ گاہ کے اندر ہی قدرتی ماحول سے ملتی جلتی ایک جگہ تیار کی، جس کے گرد مصنوعی مقناطیسی میدان پیدا کیا گیا جسے یہ ماہرین کنٹرول کرسکتے تھے اور اس کی سمت تبدیل بھی کرسکتے تھے۔
اس جگہ پر یہ چھچھوندریں اپنے لیے سرنگیں کھود کر زیرِ زمین رہ سکتی تھیں اور اپنے بِل بھی بنا سکتی تھیں۔ یہاں آنکھوں سے محروم چھچھوندروں کے ساتھ وہ چھچھوندریں بھی چھوڑی گئیں جن کی آنکھیں موجود تھیں اور نکالی نہیں گئی تھیں۔
ماہرین کو مشاہدہ ہوا کہ وہ چھچھوندریں جن کی آنکھیں سلامت تھیں، انہوں نے مصنوعی مقناطیسی میدان کی تبدیلی پر ردِعمل ظاہر کیا اور جب اپنے بِل کھودے تو وہ مصنوعی مقناطیسی میدان کی تبدیل شدہ سمت کے حساب سے جنوب مشرق میں تھے۔
ان کے برعکس، بغیر آنکھوں والی چھچھوندروں میں مقناطیسی میدان یا اس میں تبدیلی کا کوئی اثر نہیں ہوا؛ اور انہوں نے اپنے بِل کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر کھودے۔ اس سے ثابت ہوا کہ آنکھوں کی غیر موجودگی میں یہ چھچھوندریں مقناطیسی میدان کو محسوس کرنے اور اس سے رہنمائی لینے کے قابل بھی نہیں رہی تھیں۔
اس تحقیق کے اختتام پر ماہرین نے تجویز کیا ہے کہ مذکورہ چھچھوندروں کی آنکھوں کا معائنہ طاقتور الیکٹرون خردبین اور طیف نگاری کی جدید تکنیکوں سے کیا جائے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ صرف 2 ملی میٹر جتنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں مقناطیسی میدان کو محسوس کرنے والے حصے کہاں واقع ہیں۔
The post یہ ’نابینا چھچھوندر‘ اپنی آنکھوں سے مقناطیسی میدان کو ’دیکھ‘ سکتی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو » سائنس/ٹیکنالوجی https://ift.tt/3lbW3Gj
via IFTTT
No comments